دوستو، کبھی کبھی تاریخ کے اوراق ایسے دردناک واقعات سے بھرے ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر دل دہل جاتا ہے اور روح کانپ اٹھتی ہے۔ آج میں آپ کو ایک ایسے ہی دلخراش باب کی سیر کرانے والا ہوں، جو لیتوانیا کی سرزمین پر رقم ہوا تھا – ہولوکاسٹ کا خوفناک دور۔ آپ نے ہولوکاسٹ کے بارے میں تو سنا ہی ہوگا، ایک ایسا منظم ظلم جو لاکھوں بے گناہ جانوں کو نگل گیا ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ لیتوانیا میں اس کی کہانی کتنی ہولناک اور منفرد تھی؟ جب بھی میں اس موضوع پر سوچتا ہوں، ایک عجیب سا دکھ اور ذمہ داری کا احساس گھیر لیتا ہے۔ ان لوگوں کے دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہوں جنہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا، جن کے گھر، ان کے اپنے، اور ان کی امیدیں پل بھر میں راکھ ہو گئیں ۔ یہ صرف ماضی کا قصہ نہیں، بلکہ آج بھی ہمیں نفرت اور تعصب کے خلاف کھڑے ہونے کا سبق دیتا ہے ۔ اس کی گہرائیوں میں چھپی حقیقتیں آج بھی ہمیں بہت کچھ سکھا رہی ہیں۔ آئیے ذیل کے مضمون میں تفصیل سے معلوم کریں۔
ہولناک کہانی کا آغاز: لتھوانیا پر سائے
جب نازی ظلم کا سایہ یورپ پر چھا رہا تھا، تو لتھوانیا بھی اس کی لپیٹ میں آنے سے نہ بچ سکا۔ یہاں کے لوگوں نے، خصوصاً یہودی برادری نے، اس وقت شاید تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ آنے والے دن ان کی زندگیوں کو کس قدر تاریک کر دیں گے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس وقت ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی جب انہوں نے اپنی دہلیز پر تبدیلیوں کے آثار دیکھے ہوں گے۔ یہ محض سیاسی تبدیلیاں نہیں تھیں، بلکہ یہ ان کے وجود، ان کی شناخت اور ان کی زندگی کے حق پر حملہ تھا۔ ہر گزرتا دن ایک نئی پابندی، ایک نیا خوف، اور ایک نئی مایوسی لے کر آتا تھا۔ لیتھوانیا، جو کبھی ایک آزاد اور خودمختار ملک تھا، دوسری عالمی جنگ کے دوران سوویت یونین کے قبضے میں آگیا، اور پھر جرمن نازیوں نے اسے اپنے شکنجے میں کس لیا۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب انسانیت اپنی پست ترین سطح پر پہنچ چکی تھی۔ جو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے پرامن زندگی گزار رہے تھے، اچانک ان کی دنیا اُجڑنے لگی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ سب پڑھ کر اور اس پر تحقیق کر کے احساس ہوتا ہے کہ کس طرح ایک منظم پروپیگنڈا اور نفرت، لاکھوں لوگوں کی ہنستی بستی زندگیوں کو نگل سکتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگوں کو ان کی شناخت کی بنا پر نشانہ بنایا جا رہا تھا، اور آزادی، حقوق، اور انسانیت کے تمام تصورات کو پامال کیا جا رہا تھا۔
بے خبری کے لمحے
شروع میں تو شاید بہت سے لوگ حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگا پائے ہوں گے۔ جب نازیوں نے لتھوانیا میں قدم جمائے، تو ان کے اقدامات ابتدائی طور پر یہودیوں کو سماجی اور معاشی زندگی سے الگ کرنے تک محدود تھے۔ کاروبار چھین لیے گئے، نوکریوں سے نکال دیا گیا، اور انہیں عام شہریوں سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسی سازش تھی جو آہستہ آہستہ اپنی جڑیں جما رہی تھی، اور جب تک لوگ حقیقت سمجھتے، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہر کسی کو یہی لگتا تھا کہ شاید یہ وقت بھی گزر جائے گا، لیکن وقت صرف حالات کو بدتر کرتا چلا گیا۔
بدلتی تقدیر کے اشارے
پھر وہ وقت آیا جب یہ ظلم جسمانی تشدد اور قتل عام میں بدل گیا۔ نازیوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر منظم طریقے سے یہودیوں کی نسل کشی کا آغاز کیا۔ لتھوانیا میں خاص طور پر یہ طریقہ اپنایا گیا کہ یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈالنے کے بجائے کھلے عام گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے کہ دن دیہاڑے ہزاروں لوگوں کو، مردوں، عورتوں اور بچوں کو، ان کی بستیوں کے قریب ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نازی کس قدر بے رحم ہو چکے تھے اور انہیں انسانی جان کی کوئی قدر نہیں تھی۔
نازی ظلم کا پھیلتا جال اور مقامی تعاون
ہولوکاسٹ ایک منظم اور سرکاری سرپرستی میں کیا جانے والا ظلم تھا، جس میں نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں نے لاکھوں یورپی یہودیوں کو نشانہ بنایا۔ لتھوانیا میں نازیوں نے ایک ہولناک حکمت عملی اپنائی جو خاص طور پر مشرقی یورپ میں عام تھی۔ یہاں یہودیوں کو گیس چیمبروں میں بھیجنے کے بجائے، انہیں کھلے عام، دن دیہاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ تصور کر کے ہی دل دہل جاتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ان کے گھروں اور بستیوں کے قریب اجتماعی قبروں میں دھکیل دیا گیا، جہاں انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ جرمنوں نے یہ کام اس قدر بے شرمی سے کیا کہ مقامی آبادی بھی اس کی گواہ بنی۔ یہ نہ صرف ظلم کی انتہا تھی، بلکہ انسانیت کے ضمیر پر ایک سیاہ دھبہ بھی تھا۔ اس وقت جو لوگ ان واقعات کے عینی شاہد تھے، ان پر کیا گزری ہوگی؟ میں ذاتی طور پر جب ایسے واقعات کے بارے میں پڑھتا ہوں تو یہی سوچتا ہوں کہ کیا کوئی انسان اس قدر سفاک بھی ہو سکتا ہے؟ یہ صرف کہانی نہیں، یہ ایک بھیانک حقیقت ہے جسے ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ وہ دور تھا جب لوگوں کو محض ان کے مذہب کی وجہ سے انسان سمجھنے سے انکار کر دیا گیا تھا، اور انہیں بے دریغ قتل کیا گیا۔
اجتماعی قتل کا سلسلہ
لتھوانیا میں قتل عام کا یہ سلسلہ ایک غیر معمولی رفتار سے آگے بڑھا۔ نازیوں نے ایسے گروہ تشکیل دیے تھے جو ایک شہر سے دوسرے شہر جا کر یہودیوں کو اکٹھا کرتے اور انہیں قتل گاہوں کی طرف لے جاتے تھے۔ اس دوران مقامی لوگوں میں بھی خوف و ہراس پھیل گیا تھا، اور بہت سے لوگ یا تو خاموش تماشائی بنے رہے یا پھر خوف کے مارے نازیوں کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جہاں ہر انسان کا امتحان ہو رہا تھا۔
گیس چیمبرز کی بجائے گولیاں
یہ ایک دل دہلا دینے والا حقیقت ہے کہ لتھوانیا میں یہودیوں کو گیس چیمبرز کی بجائے براہ راست گولیوں سے مارا گیا۔ یہ عمل اکثر جنگلوں، کھیتوں، یا قصبوں کے مضافاتی علاقوں میں انجام دیا جاتا تھا، جہاں ہزاروں بے گناہ جانوں کو ایک ہی وقت میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ اس قسم کا قتل عام گیس چیمبروں سے بھی زیادہ وحشیانہ تھا، کیونکہ یہ کھلے عام کیا جاتا تھا اور متاثرین کو موت سے پہلے کے خوفناک لمحات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
زندگی کے آخری لمحے: گھیٹوز کی ہولناکی
ہولوکاسٹ کے دوران، لتھوانیا میں یہودیوں کو گھیٹوز میں قید کر دیا گیا۔ یہ کوئی معمولی قید خانے نہیں تھے، بلکہ یہ ایسی تنگ اور گندی بستیاں تھیں جہاں لاکھوں یہودیوں کو انسانیت سوز حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ مجھے یہ سوچ کر ہی رونا آ جاتا ہے کہ کیسے ایک ہنستا بستا گھر، محلہ، اور پھر پورا شہر ایک بڑے قید خانے میں بدل گیا۔ وہاں نہ کھانے کو کچھ تھا، نہ پانی کا انتظام، اور نہ ہی صاف ستھری جگہ جہاں لوگ سکون سے رہ سکیں۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے اوپر رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ بیماریاں تیزی سے پھیلتی تھیں اور علاج کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ میرا ماننا ہے کہ بھوک، پیاس اور بیماری سے تڑپ تڑپ کر مرنا بھی کسی قتل سے کم نہیں۔ ایک ایک دن گزارنا وہاں کے باسیوں کے لیے ایک صدی جینے کے برابر تھا۔ جب بھی میں اس موضوع پر کچھ لکھتا ہوں تو میرے دل میں درد اٹھتا ہے، اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ان لوگوں کے دکھ کو کسی حد تک محسوس کر سکتا ہوں۔ ان کی تمام امیدیں، ان کے خواب، سب کچھ وہاں کی دیواروں کے پیچھے دفن ہو کر رہ گئے تھے۔
تنگ گلیوں میں قید زندگی
گھیٹوز میں زندگی ایک مسلسل عذاب تھی۔ ہزاروں لوگ چند کمروں میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ ہر طرف گندگی اور تعفن پھیلا رہتا تھا۔ بچوں کی ہنسی غائب ہو چکی تھی اور بڑوں کے چہروں پر مایوسی کے سائے چھائے ہوئے تھے۔ لوگوں کو بھوک اور پیاس سے لڑنا پڑتا تھا، اور سردیوں میں سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا۔ یہ ایک ایسی زندگی تھی جہاں انسانی وقار کا کوئی وجود نہیں تھا۔
روز مرہ کے مظالم
گھیٹوز کے اندر بھی یہودیوں پر روزانہ کی بنیاد پر ظلم ڈھائے جاتے تھے۔ انہیں جبری مشقت پر لگایا جاتا، انہیں معمولی سی غلطی پر پیٹا جاتا اور ان کی تذلیل کی جاتی۔ نازیوں کا مقصد صرف انہیں ختم کرنا نہیں تھا، بلکہ انہیں نفسیاتی طور پر بھی توڑنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہودی اپنا انسانی وجود بھول جائیں اور محض ایک کیڑے کی طرح زندگی گزاریں۔ یہ وہ دور تھا جب انسانیت نے اپنی سب سے سیاہ تاریخ رقم کی تھی۔
| خصوصیت | تفصیل |
|---|---|
| ہولوکاسٹ کا آغاز | 1941 میں جرمن نازیوں کے قبضے کے بعد |
| قتل عام کا طریقہ | بڑے پیمانے پر گولیوں کا استعمال (اجتماعی قتل) |
| متاثرین کی تعداد | لتھوانیا کی 95 فیصد یہودی آبادی کا خاتمہ (تقریباً 200,000 افراد) |
| اجتماعی قبریں | پوناری (Ponary) اور دیگر مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں |
| مقامی تعاون | کچھ مقامی عناصر نازیوں کے ساتھ شریک جرم تھے |
| گھیٹوز | ویلنیئس، کاؤناس، شیاؤلیائی میں گھیٹوز قائم کیے گئے |
امید کے جھوٹے خواب اور انسانیت کی موت
ان خوفناک حالات میں بھی کچھ لوگوں کے دل میں امید کی ایک چنگاری باقی تھی۔ انہیں لگتا تھا کہ شاید یہ ظلم جلد ہی ختم ہو جائے گا اور وہ ایک بار پھر اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ لیکن نازیوں کے ارادے بہت خطرناک تھے، اور وہ کسی بھی قیمت پر یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ سب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کس طرح ایک انسان دوسرے انسان کی جان کا دشمن بن سکتا ہے، اور کس طرح امید کے جھوٹے خواب بھی انسانیت کو مزید گہرائی میں دھکیل سکتے ہیں۔ جب کوئی انسان اپنا سب کچھ کھو دے، اور اس کے پاس بچنے کی کوئی راہ نہ ہو، تو وہ کس حال میں ہوتا ہو گا؟ یہ صرف جسمانی موت نہیں تھی، یہ ان کی روحوں کی موت تھی۔ نازیوں نے ان سے جینے کا حق، اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق، اور سب سے بڑھ کر انسان ہونے کا حق چھین لیا تھا۔ یہ انسانی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
بچنے کی ناکام کوششیں
بہت سے یہودیوں نے گھیٹوز اور کیمپوں سے فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن ان میں سے زیادہ تر ناکام رہے۔ جو بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، انہیں بھی ہر قدم پر خطرات کا سامنا تھا۔ انہیں یا تو بھوک اور بیماری نے نگل لیا یا پھر نازیوں کے سپاہیوں نے انہیں دوبارہ پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جسے یہودی کبھی جیت نہیں سکتے تھے، کیونکہ ان کے خلاف ایک منظم اور سفاک نظام کھڑا تھا۔
اپنوں کا بچھڑ جانا
اس ہولوکاسٹ کے دوران لاکھوں خاندان بکھر گئے۔ مائیں اپنے بچوں سے، شوہر اپنی بیویوں سے، اور بھائی اپنی بہنوں سے جدا ہو گئے۔ بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کے پیارے کہاں گئے اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ جدائی کا درد اس قدر گہرا تھا کہ جو لوگ زندہ بچ گئے، وہ ساری زندگی اس صدمے سے باہر نہیں آ سکے۔ ان کے دلوں میں ایک خالی پن رہ گیا جو کبھی بھر نہیں سکا۔
وہ گمنام قبریں جو آج بھی چیخ رہی ہیں
لتھوانیا کی سرزمین پر آج بھی ہولوکاسٹ کی وہ گمنام قبریں موجود ہیں جو خاموشی سے ان ہولناک واقعات کی گواہی دے رہی ہیں۔ ان قبروں میں ہزاروں بے گناہ لوگ دفن ہیں جنہیں بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ جب میں ان قبروں کے بارے میں سوچتا ہوں تو ایک عجیب سا دکھ اور وحشت کا احساس ہوتا ہے۔ ان قبروں پر کوئی نام نہیں، کوئی تاریخ نہیں، بس گمنام روحیں ہیں جو آج بھی انصاف اور انسانیت کا پیغام دے رہی ہیں۔ یہ صرف مٹی کے ڈھیر نہیں، بلکہ یہ انسانی تاریخ کی ایک ایسی داستان ہیں جو ہمیں کبھی بھی نفرت اور تعصب کو پروان چڑھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ ان مقامات پر جا کر شاید انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم نے ماضی میں کتنی بڑی غلطیاں کی ہیں اور مستقبل میں ہمیں ان سے کتنا کچھ سیکھنا ہے۔ ان گمنام قبروں کے پیچھے چھپی داستانیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کتنی قیمتی ہے اور ہمیں ہر انسان کے وجود کا احترام کرنا چاہیے۔
اجتماعی قبروں کا لرزا خیز سچ
پوناری (Ponary) لتھوانیا میں ایک ایسا ہی مقام ہے جہاں ہزاروں یہودیوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا تھا۔ یہاں کے جنگل میں آج بھی وہ خاموش گڑھے موجود ہیں جو اس ہولناک ظلم کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ صرف ایک جگہ نہیں، بلکہ لتھوانیا کے طول و عرض میں ایسے بے شمار مقامات ہیں جہاں بے گناہ جانوں کو دفن کیا گیا ہے۔ یہ اجتماعی قبریں ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ انسانیت نے کتنا بڑا نقصان اٹھایا اور یہ زخم آج بھی تازہ ہیں۔
تاریخ کا بھلایا ہوا حصہ
بدقسمتی سے، ہولوکاسٹ کا یہ پہلو، خاص طور پر مشرقی یورپ میں ہونے والے اجتماعی قتل عام، اکثر گیس چیمبروں کی کہانیوں کے سائے میں دب جاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اتنی ہی تلخ اور لرزا خیز ہے کہ نازیوں نے کس طرح کھلے عام اور بے شرمی سے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا۔ ہمیں اس تاریخ کے ہر پہلو کو یاد رکھنا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسی کوئی بھی نسل کشی دوبارہ نہ ہو سکے۔
ہولوکاسٹ کے زخم اور باقیات کی کہانی
ہولوکاسٹ کے بعد کی دنیا ان لوگوں کے لیے مکمل طور پر بدل چکی تھی جو زندہ بچ گئے تھے۔ میرے خیال میں آزادی ملنے کے بعد بھی ان کی روحیں قید تھیں، کیونکہ انہوں نے جو کچھ دیکھا اور سہا تھا، وہ زندگی بھر ان کے ساتھ رہا۔ ان زخموں کو بھرنا ناممکن تھا، اور بہت سے لوگ ساری زندگی اس صدمے سے باہر نہیں آ سکے۔ جب جنگ ختم ہوئی، تو زندہ بچ جانے والوں کو نئے سرے سے زندگی شروع کرنی تھی، لیکن ان کے پاس نہ گھر تھا، نہ اپنے، اور نہ ہی کوئی امید۔ مجھے یقین ہے کہ ہر دن ان کے لیے ایک نئی آزمائش تھی، اور انہیں ہر لمحہ ماضی کے خوفناک سائے گھیرے رہتے تھے۔ یہ صرف ان کی جسمانی بقا نہیں تھی، بلکہ یہ ان کی روحوں کی بقا کی جنگ تھی جو وہ ساری زندگی لڑتے رہے۔ ان کی کہانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انسانیت کس قدر لچکدار ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتاتی ہیں کہ ظلم کی انتہا کیا ہو سکتی ہے۔ ہمیں ان باقیات کی کہانیوں کو سننا چاہیے، ان سے سیکھنا چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی بھی شخص دوبارہ ایسا ظلم نہ سہے۔
آزادی کی کڑوی حقیقت
جب کیمپ آزاد کرائے گئے، تو ہزاروں لوگ زندہ بچ گئے تھے، لیکن وہ بھوک، بیماری اور ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ انہیں اپنا وطن واپس جانے سے بھی خوف تھا کیونکہ کئی علاقوں میں یہودیوں سے نفرت اب بھی موجود تھی۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ کہیں انہیں دوبارہ سے نشانہ نہ بنا دیا جائے۔ اس لیے بہت سے لوگ بے گھر ہو کر پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے، جہاں انہیں نئے سرے سے زندگی شروع کرنی پڑی۔
نئی زندگی کی تلاش

ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں نے آہستہ آہستہ اپنی زندگیوں کو دوبارہ بنانے کی کوشش کی۔ بہت سے لوگ اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ہجرت کر گئے۔ انہوں نے وہاں جا کر اپنی نئی زندگیاں شروع کیں، لیکن ہولوکاسٹ کا داغ ان کے دلوں سے کبھی نہ مٹ سکا۔ ان کی کہانیاں آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ نفرت اور تعصب کس قدر تباہ کن ہو سکتے ہیں، اور ہمیں انسانیت اور ہمدردی کو ہمیشہ مقدم رکھنا چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی یاد کو تازہ رکھیں اور ان کے تجربات سے سیکھیں تاکہ دنیا میں امن اور برداشت کو فروغ دیا جا سکے۔
글을 마치며
دوستو، ہولوکاسٹ ایک ایسی دردناک تاریخ ہے جسے یاد رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ لتھوانیا میں ہونے والے یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ نفرت اور تعصب کس قدر تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ جب میں نے اس موضوع پر تحقیق کی اور اسے آپ کے سامنے پیش کیا، تو مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ ہمیں انسانیت اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوششیں کرنی ہوں گی۔ یہ صرف ماضی کا قصہ نہیں، بلکہ آج بھی ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا کتنا ضروری ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی بھی وقت دوبارہ نہ آئے جہاں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ ہو، اور لوگ محض اپنی شناخت کی بنا پر نشانہ بنیں۔
알아두면 쓸모 있는 정보
1. لتھوانیا میں تقریباً 95 فیصد یہودی آبادی کو ہولوکاسٹ کے دوران ختم کر دیا گیا، جو کہ کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ شرحوں میں سے ایک ہے۔
2. پوناری (Ponary) کا جنگل لتھوانیا میں ہولوکاسٹ کے سب سے بڑے قتل عام کی جگہ ہے، جہاں تقریباً 100,000 افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
3. نازیوں نے مشرقی یورپ، بالخصوص لتھوانیا میں یہودیوں کو گیس چیمبروں کے بجائے براہ راست گولیوں سے مارنے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔
4. لتھوانیا میں کچھ مقامی گروہوں نے نازیوں کے ساتھ تعاون کیا، جس کی وجہ سے قتل عام کی رفتار اور شدت میں اضافہ ہوا۔
5. ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے افراد کی کہانیاں آج بھی انسانی لچک اور جبر کے خلاف مزاحمت کی ایک زندہ مثال ہیں۔
중요 사항 정리
ہم نے آج ہولوکاسٹ کے لتھوانیا کے باب کا جائزہ لیا، جس میں تقریباً دو لاکھ یہودیوں کو سفاکانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ اس ظلم میں نازی جرمنی کے ساتھ مقامی معاونین نے بھی حصہ لیا۔ قتل عام کے لیے گولیوں کا استعمال کیا گیا اور لوگوں کو گھیٹوز میں بدترین حالات میں قید رکھا گیا۔ یہ تاریخ ہمیں نفرت اور تعصب کے خلاف کھڑے ہونے اور انسانیت کے احترام کو ہمیشہ مقدم رکھنے کا سبق دیتی ہے۔ یاد رکھیں، ایک قوم کی طاقت اس کی تاریخ کو یاد رکھنے اور اس سے سبق سیکھنے میں ہے۔ یہ صرف ماضی نہیں، بلکہ حال اور مستقبل کی بھی آئینہ دار ہے کہ کیسے نفرت انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتی ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: لیتھوانیا میں ہولوکاسٹ کیسے شروع ہوا اور یہ باقی یورپ سے کس طرح مختلف تھا؟
ج: میرے پیارے دوستو، لیتھوانیا میں ہولوکاسٹ کی شروعات واقعی دل دہلا دینے والی تھی۔ جون 1941 میں جب نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کیا اور لیتھوانیا پر قبضہ کیا، تو بہت کم وقت میں ہی یہودیوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ یہ عمل اتنا تیزی سے ہوا کہ اکثر لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ باقی یورپ میں، ہولوکاسٹ کا عمل زیادہ منظم اور دھیرے دھیرے گھیٹو سازی اور پھر حراستی کیمپوں کے ذریعے انجام دیا گیا، لیکن لیتھوانیا میں نازیوں نے فوری طور پر ‘آئینساٹس گروپنز’ (Einsatzgruppen) نامی خصوصی دستوں کے ذریعے مقامی لیتھوانیائی معاونوں کی مدد سے یہودیوں کی بڑے پیمانے پر فائرنگ اسکواڈز کے ذریعے قتل کرنا شروع کر دیا۔ میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ شاید یہ مقامی مدد اور اس کی فوری دستیابی ہی تھی جس نے اس تباہی کو اتنی تیزی سے ممکن بنایا۔ لوگ یہودیوں کے گھروں اور کاروباروں پر قبضہ کرنے کے لیے بھی بے تاب تھے، جس نے اس ظلم کو مزید ہوا دی۔ یہ سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح انسانیت اس قدر گر سکتی ہے ۔
س: لیتھوانیا کے یہودیوں کو اس دوران کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: لیتھوانیا کے یہودیوں کو جو مصیبتیں جھیلنی پڑیں، ان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ شروع میں انہیں اپنے گھروں سے بے دخل کرکے گھیٹوز (جیسے ویلنیئس اور کاوناس کے گھیٹوز) میں قید کر دیا گیا، جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں۔ میرے خیال میں گھیٹوز میں قید ہونا، بھوک، بیماریاں اور ہر وقت موت کا خوف، یہ سب انسانی روح کو توڑنے کے لیے کافی تھا۔ اس کے بعد بدترین چیز، ‘ایکشنز’ کہلانے والے بڑے پیمانے پر قتل عام تھے۔ ہزاروں یہودیوں کو، جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے، شہروں سے باہر لے جا کر خندقوں کے کنارے کھڑا کر کے گولی مار دی جاتی تھی۔ یہ سب کچھ دن دہاڑے ہوتا تھا اور مقامی آبادی کے بعض لوگ اس میں ملوث بھی تھے۔ میں نے جب اس بارے میں پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ صرف ایک قتل عام نہیں تھا بلکہ انسانیت کا قتل تھا جہاں انسان کو ہر قسم کے احترام سے محروم کر دیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
س: آج لیتھوانیا اس ہولناک دور کو کیسے یاد کرتا ہے اور اس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
ج: آج لیتھوانیا اس ہولناک دور کو فراموش نہیں کر پایا ہے اور اسے یاد رکھنے کے لیے کئی اقدامات کر رہا ہے۔ ملک بھر میں بہت سی یادگاریں، عجائب گھر اور تعلیمی مراکز قائم کیے گئے ہیں تاکہ نئی نسل کو اس تاریخ سے آگاہ کیا جا سکے۔ جیسے پوناری (Ponary) میں یادگار، جہاں ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا، یا ویلنیئس کا گھیٹو میوزیم۔ یہ سب ہمیں اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ نفرت اور تعصب کے نتائج کتنے خوفناک ہو سکتے ہیں۔ میرے تجربے میں، ایسے واقعات کو یاد رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ہم مستقبل میں ایسے ظلم کو دوبارہ نہ ہونے دیں۔ میں نے خود یہ سوچا ہے کہ اگر ہم تاریخ سے نہیں سیکھیں گے تو اسے دہرانے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا۔ ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ انسانیت، رواداری اور انصاف کے لیے کھڑے رہنا چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ خاموشی ظلم کی ایک شکل ہے اور ہمیں ہمیشہ حق اور سچ کی آواز بلند کرنی چاہیے۔






